Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 5

منزل عشق قسط  5
"آزادی مبارک راگا اپنا سردار آزاد کروا ہی لیا نا ہم نے۔۔۔۔"
کال نے مسکرا کر راگا کو دیکھا۔وہ لوگ اس وقت ایک گاڑی میں تھے جو خفیہ پہاڑی راستوں سے ہوتی ہوئی انکی منزل پر گامزن تھی۔راستے میں انہیں کئی جگہ ناقہ بندی ملی تو وہ پولیس والوں کو چکما دے کر گاڑی بدلتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
اب صبح کے دس بجے کا وقت ہو رہا تھا اور وہ اپنی منزل کے بہت قریب تھے۔
"مان گئے تم کو ماڑا آزاد تو کروا لیا  لیکن میں سوچ رہا تھا کہ کوئی چار مہینہ اور مار پڑا لیتا تم مارے کو۔۔
۔ لالے اتنی جلدی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔"
راگا نے اپنے گال پر لگے کٹ کو سہلاتے ہوئے طنز کیا۔
"میں اور ویرہ تو کب سے کوشش کر رہے تھے راگا بہت کچھ کیا لیکن فوج تمہیں چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھی۔"
کال جو اب چہرے سے نقاب ہٹا چکا تھا گہرا سانس لیتے ہوئے بولا۔
"ارے کوئی بات نہیں لالے کی جان میں تو سسرال میں تھا،مزے سے دم پخت  کھا رہا تھا روز خاطر تواضع ہوتی تھی میری میں کونسا کسی جیل میں بند فوجیوں کے ڈنڈے کھا رہا تھا۔"
راگا نے آنکھ دبا کر کہا تو کال قہقہ لگا کر ہنس دیا۔چہرے پر مسکراہٹ سجائے راگا کی نظر پچھلی سیٹ پر بے ہوش پڑی وانیا پر گئی جسکے معصوم چہرے سے اب چادر ہٹ چکی تھی اور وہ کوئی سوتی ہوئ معصوم سی بچی لگ رہی تھی۔
"اسے کیوں لے آیا تم؟"
راگا نے وانیا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
"لیفٹینٹ کی بیٹی ہے راگا اسی کی وجہ سے ہم وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔۔۔"
راگا کے چہرے پر نا گواریت آئی ۔
"ہاں لیکن بھاگنے کے بعد تو اسے راستے میں ہی کہیں پھینک دیتا اب اسکی وجہ سے فوج ہمیں ہر جگہ ماری ماری تلاش کر رہی ہو گی۔۔۔"
راگا کی بات پر کال ایک پل کے لئے پریشان ہوا۔
"فکر مت کر راگا ایک بار ہم اپنے قبیلے پہنچ گئے تو فوج وہاں کبھی بھی نہیں پہنچ سکے گی۔"
کال نے بھرپور اعتماد سے کہا۔
"اور اگر پہنچ گئی تو؟اگر اس لڑکی کو ڈھونڈنے کی خاطر فوج نے ہمارے قبیلے کا پتہ لگا لیا تو؟"
راگا نے کال کو گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی کال ان نگاہوں سے خائف ہو رہا تھا۔
"آج تک تو نہیں پہنچ پائی فوج وہاں راگا ابھی کیسے پہنچے گی۔۔۔"
"اوئے خبیث آج تک فوج راگا کو بھی پکڑ نہیں پایا تھا لیکن پکڑ لیا نا۔۔۔۔۔یہ لڑکی نہیں تو نئی مصیبت اٹھا لایا ہے ساتھ ۔۔۔۔"
راگا نے اپنے دانت کچکچاتے ہوئے کہا۔
"فکر مت کر راگا کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔"
راگا نے مزید کچھ کہنا بیکار سمجھا اس لیے خاموش ہو گیا۔
"دیکھ ہم پہنچ گئے۔۔۔"
کال نے وادی کی جانب اشارہ کیا جو قراقرم کے برفیلے پہاڑوں کے دامن میں چھوٹا سا گاؤں چھپا کر رکھے ہوئے تھی۔
 پہاڑوں کے دامن میں وہ چھوٹا سا گاؤں دیکھنے میں جنت کا ٹکڑا ہی لگتا جس کے ساتھ ایک چھوٹی سی جھیل بہتی تھی اور چاروں اطراف برفیلے پہاڑ تھے لیکن سب ہی اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ علاقہ گاؤں کی آڑ میں دہشتگردوں کا ٹھکانہ تھا۔
انکی گاڑیاں اوبڑ کھابڑ راستوں سے ہوتی ہوئی گاؤں کی دہلیز تک پہنچی جہاں تقریباً ایک بتیس سالہ رعب دار  شخص کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا۔
"راگا میرے بھائی۔۔۔۔"
راگا مسکرا کر اسکے پاس گیا اور اس کے گلے سے لگ گیا۔
"کیسے ہو ویرہ؟"
راگا کے سوال پر ویرہ مسکرایا۔
"آزادی مبارک ہو راگا جنگل کا شیر لوٹ آیا ہے۔۔۔"
ویرہ نے مسکرا کر کہا اور پیچھے کھڑے کال کو دیکھا جو وانیا کو بازو سے پکڑے اپنے ساتھ لا رہا تھا اور وانیا روتے ہوئے اس سے خود کو چھڑوانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔
"نن۔۔۔۔نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔۔پلیز مجھے جانے دو۔۔۔بابا۔۔۔۔"
وانیا جھپٹتے ہوئے چلا رہی تھی آنکھیں آنسوں سے بھری ہوئی تھیں۔
"یہ کون ہے کال؟"
ویرہ کے ماتھے پر اس لڑکی کو دیکھ کر بل پڑھ گئے تھے۔
"لیفٹیننٹ وجدان خان کی بیٹی ہے۔وہاں سے بھاگنے کے لیے ہمیں اسکا سہارا لینا پڑا۔۔۔"
کال کے بتانے پر راگا نے اپنی آنکھیں گھمائیں۔
"تو راستے میں ہی مار کر پھینک آتے اسے ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔"
ویرہ نے انتہائی زیادہ سفاکی سے کہا ابھی بھی اسکا ہاتھ اپنی بندوق تک جا چکا تھا جبکہ اسکی بات سن کر وانیا کی روح تک فنا ہو گئی تھی۔
"مجھے اچھی لگی ویرہ۔۔۔اسے میں اپنے لیے لایا ہوں۔۔۔"
کال کی بات پر بے ساختہ راگا کی نگاہیں اس لڑکی کے نازک وجود پر پڑیں۔وہ بلا شبہ بہت زیادہ خوبصورت لڑکی تھی اور سب سے حسین تو اسکی وہ کانچ سی آنکھیں تھیں۔
"اور تیرے اس شوق کی قیمت ہمیں اٹھانی پڑے گی یہ لڑکی ہمارا ٹھکانہ جان چکی ہے کال اب اسکا پچھلی دنیا میں لوٹنا ناممکن ہے۔"
ویرہ نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا۔
"نہیں ویرہ فکر مت کر کچھ دن میرا شوق پورا ہو لے تو وہی کروں گا جو تو چاہتا ہے۔۔۔مار کر پھینک آؤں گا۔۔۔"
کال نے خباثت سے کہا تو ویرہ نے گہرا سانس لے کر اثبات میں سر ہلایا۔وانیا کا جھٹپٹانا شدت اختیار کر چکا تھا۔
"ٹھیک ہے رکھ لے اسے ۔۔۔۔"
"یہ فیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو ویرہ؟"
راگا جو اتنی دیر سے خاموش کھڑا انکی باتیں سن رہا تھا بول اٹھا تو دونوں نے حیرت سے راگا کو دیکھا۔
"جہاں تک مجھے یاد ہے ویرہ تم لوگوں کا سردار میں ہوں اور تم دونوں میرے ساتھی اور اس قبیلے میں موجود ہر شے کا فیصلہ سردار کرتا ہے جو راگا ہے ویرہ نہیں۔۔۔۔"
راگا نے ایک ابرو اچکا کر کہا تو ویرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
"تمہارے جانے کے بعد سردار رہا نا راگا تو یہ بات بھول گیا۔۔۔"
ویرہ کے مسکرانے پر راگا نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"بہتر ہو گا یاد رکھو کہ اصلی سردار راگا ہی ہے کوئی اور نہیں۔۔۔۔"
راگا اسے وارننگ دیتا کال اور وانیا کی طرف مڑا۔
"اس قبیلے میں آنے والا ہر چیز سردار کا ملکیت ہوتا ہے اسکے ساتھ کیا کرنا ہے یہ بھی میرا فیصلہ ہو گا کیونکہ ہر دوسری شے کی طرح یہ بھی سردار کا ملکیت ہے۔۔۔"
راگا نے مسکرا کر وانیا کا گال چھوتے ہوئے کہا جو اب اپنی خوف سے بھری نگاہیں اٹھا کر روتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔
"میرے کمرے میں چھوڑ کر آ اس ماہ جبین کو لالے کی جان آج سے یہ راگا کا ہوا۔۔۔۔"
راگا کی بات پر جہاں وانیا سوکھے پتے کی مانند کانپ گئی تھی وہیں کال اپنے ناگواری چھپا نہیں سکا۔
"یہ مجھے پسند آئی تھی راگا۔۔۔"
کال کی بات پر راگا نے اپنی شریر نگاہیں وانیا کے چہرے سے ہٹا کر کال کو دیکھا لیکن اب آنکھوں میں خون اتر چکا تھا۔
"اب مجھے آ گئی بات ختم۔۔۔"
نہ جانے کال نے راگا کی سیاہ آنکھوں میں ایسا کیا دیکھا کہ خوف سے کانپ اٹھا اور جی سردار کہہ کر وانیا کو راگا کے گھر کی جانب لے گیا۔
"اب تو ایک لڑکی کی وجہ سے لڑ رہا ہے۔۔۔۔ہاہاہا فوجیوں نے تجھے منچلا کر دیا راگا۔۔۔"
ویرہ نے ہنستے ہوئے کہا تو راگا بھی مسکرا کر اسکے ساتھ چل دیا۔
                      ❤️❤️❤️❤️
زرش ہاسپٹل میں ایڈمیٹ تھی پریشانی کے باعث اسکا بی پی بہت زیادہ شوٹ کر چکا تھا اور سب لوگوں کی پریشانی وانیا کے ساتھ ساتھ زرش کی وجہ سے مزید بڑھ گئی تھی۔
ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اسکی صحت کے لیے ضروری ہے کہ اسکی پریشانی دور کی جائے لیکن وجدان یہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ زرش کی پریشانی کو دور کرنے کے لیے وانیا کو کیسے لائے۔
رات بھر آرمی اور پولیس وانیا کی تلاش میں جٹے رہے تھے لیکن اسکے باوجود وہ دہشتگرد نہ جانے وانیا کو کہاں لے کر جا چکے تھے۔
"کچھ پتہ نہیں چلا وجدان وانیا کا؟"
شایان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تو وجدان نے ضبط سے آنکھیں موند کر انکار میں سر ہلایا۔
"تم پریشان مت ہو وجدان ہم مل کر اسے ڈھونڈیں گے تم دیکھنا دو دن میں وانیا یہاں ہو گی۔۔۔"
شایان نے غصے سے کہا۔
"نہیں شایان تمہاری اپنی فیملی ہے بچے ہیں میں نہیں چاہتا کہ جنت اور معراج مصیبت میں پڑیں اس لیے تمہیں اس سب میں پڑنے کی ضرورت نہیں آرمی وانیا کو تلاش کر رہی ہے وہ کر لے گی۔۔۔"
اس بات پر شایان کے ساتھ ساتھ باقی سب نے بھی بے یقینی سے وجدان کو دیکھا۔
"للل۔۔۔۔لیکن ماموں ہم یوں تت۔۔۔۔تو نہیں بیٹھ سکتے ناں ۔۔۔"
"نہیں معراج تم بھی اس معاملے سے دور رہو یہ بہت خطرناک ہے میں نہیں چاہتا کوئی بھی اس معاملے میں پڑے۔۔۔۔وانیا کو آرمی تلاش کر رہی ہے اور یہ اسی کا کام ہے۔۔۔۔کسی اور کا اس میں پڑنا موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے۔"
اس بات پر کب سے سر جھکا کر روتی ہوئی ہانیہ نے نگاہیں اٹھا کر بے یقینی اور نفرت سے اپنے باپ کو دیکھا۔اسکا دل چاہا کہ اپنے باپ سے پوچھے کہ وہ کیوں یہاں خاموش تماشائی بنا کھڑا تھا اور باقیوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا کہہ رہا تھا؟کیوں وہ بے چینی سے اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے کے لیے زمین آسمان ایک نہیں کر رہا تھا؟کیا جو اس نے اپنے باپ کی بہادری کے قصے سنے تھے سب جھوٹ تھا؟
"ٹھیک ہے وجدان ویسا ہی ہو گا جیسا تم کہتے ہو۔۔۔"
شایان نے بے بسی سے کہتے ہوئے معراج کو دیکھا جو تب سے سائیڈ پر کھڑا تھا۔
"ہانیہ تم گھر جاؤ میں یہاں زرش کے پاس ہی ہوں۔۔۔"
وجدان نے ہانیہ کو نرمی سے کہا تو ہانیہ نے غصے سے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"میں کہیں نہیں جا رہی اور آپ اس میں مجھے مجبور نہیں کر سکتے۔۔۔۔"
ہانیہ نے دو ٹوک جواب دیا اور وہیں بیٹھی رہی۔
"معراج تم جانان اور جنت کے پاس گھر جاؤ بیٹا میں اور وجدان یہیں ہیں۔۔۔"
 معراج نے اثبات میں سر ہلایا اور وجدان کے گھر آیا جہاں جنت اور جانان پریشانی سے لاونج میں بیٹھی تھیں۔
"زرش کی طبیعت کیسی ہے اب؟"
جانان نے بے چینی سے پوچھا تو معراج اسکے پاس آیا۔
"آپ فف۔۔۔فکر مت کریں ۔۔۔۔۔وہ ٹھیک ہیں۔۔۔آآآ۔۔۔۔آپ آرام کریں بڑی مما۔۔۔"
جنت نے بھی آنسو بھری آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھا تو معراج نے اسے آنسو پونچھنے کا اشارہ کیا لیکن جنت روتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی اور بیڈ پر لیٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"تم کیوں رو رہی ہو جنت؟"
ایک آواز پر پہلے تو جنت سہم گئی پھر مڑ کر حیرت سے سالار ملک کو دیکھا جو بالکونی کے دروازے میں کھڑا تھا۔
"آپ لاہور سے یہاں کیسے آئے سالار سر آپ کو کیسے پتہ چلا کہاں ہوں میں؟نہیں۔۔۔بلکہ یہ بتائیں کہ کیوں آئے ہیں آپ یہاں؟"
جنت کے سوال پر سالار مسکرایا اب وہ اسے کیا بتاتا کہ دو ہفتوں سے اسکے موبائل میں ٹریکر لگا ہے جو ہر وقت سالار کو اسکی خبر دیتا ہے۔
"دوست جو ہیں اب ہم تو ایسا ہو سکتا کہ تمہیں اکیلا رونے کے لیے چھوڑ دوں۔۔۔۔تم اسے چھوڑو یہ بتاؤ کہ رو کیوں رہی ہو؟"
پپ
سالار نے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا حالانکہ جواب وہ جانتا تھا اور کزن کی گمشدگی پر بہت زیادہ پریشان بھی تھا۔
"وہ برے لوگ وانیہ آپی کو لے گئے  ۔۔۔"
جنت نے سرخ ناک پونچھتے ہوئے معصومیت سے کہا جبکہ اسکے آنسو سالار کو مزید بے چین کر رہے تھے۔
"جنت میں چاہتا ہوں کہ تم مت رو۔۔۔"
سالار نے نرمی سے کہا اور جنت حیرت سے آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھ رہی تھی۔
"کیوں ۔۔۔۔کیوں نہ روؤں میں؟"
جنت نے بڑی بڑی آنسوؤں میں ڈوبی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔
کیونکہ تمہارا ہر آنسو میرے دل پر تیزاب کی طرح گرتا ہے جنت میرا بس چلے تو ان آنسوؤں کو تم سے بہت دور لے جاؤں اور ہمیشہ کے لیے ایک مسکان تمہارے ہونٹوں پر سجا دوں۔۔۔۔
سالار نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا لیکن کہہ نہیں پایا۔
"کیونکہ رونا کسی چیز کا حل نہیں۔۔۔"
سالار کی بات پر جنت کا منہ مزید پھول چکا تھا۔
"آپ بہت بڑے سڑو ہو وانیا آپی پتہ نہیں کیسی ہوں گی۔۔۔۔"
اچانک جنت کو ایک خیال آیا۔
"سالار سر کیا آپ میری آپی کو نہیں ڈھونڈ سکتے آپ سیاست میں ہے آپکی بہت پہنچ ہوتی ہے ناں۔۔۔۔لیکن آپ کیسے ڈھونڈیں گے آپ تو جانتے بھی نہیں انہیں۔۔۔"
جنت نے معصومیت سے اپنے ہی سوال کا جواب دیا اور پھر سے آنسو بہانے لگی۔
" کتنا ڈر لگ رہا ہو گا نا وانیا آپی کو وہ لوگ کتنے برے ہوتے ہیں پتہ ہے اتنی بڑی بڑی گنز ہوتی ہیں انکے پاس۔۔۔"
جنت نے ہاتھ پھیلاتے ہوئے سالار کو بتایا۔
"اگر آپی کی جگہ میں یونی میں ہوتی اور وہ مجھے لے جاتے تو میں۔۔۔"
ابھی جنت کے الفاظ اسکے منہ میں ہی تھے جب اچانک سالار نے اسے اسکے بازوں سے دبوچ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔جنت اسکی غصے اور جنون سے سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ کر بری طرح سے سہم گئی۔
"ایسا کبھی غلطی سے بھی مت سوچنا جنت کہ تمہیں کوئی لے کر جائے۔۔۔۔میں اس دنیا کو آگ لگا دوں گا۔۔۔۔کوئی نہیں چھین سکتا میری جنت مجھ سے کوئی بھی نہیں۔۔۔"
سالار نے اسے گھورتے ہوئے انتہائی جنونیت سے کہا اس بات سے بے خبر کے جانے انجانے وہ اپنی جنت کو تکلیف پہنچا رہا تھا۔
"چھوڑیں۔۔۔درد ہو رہا ہے"
جنت نے آنکھوں میں آنسو لے کر کہا تو سالار نے اسے چھوڑا اور وہاں سے اٹھ کر بالکونی کی جانب چلا گیا جبکہ جنت اسکے اس رویے کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
"چھچھورا سیاست دان۔۔۔،"
                    ❤️❤️❤️❤️
وانیا کو وہ آدمی ایک پہاڑی پر بنے چھوٹے سے گر کے کمرے میں قید کر کے جا چکا تھا اور اسکے جانے کے بعد سے وانیا بس ایک کونے میں بیٹھ کر روتی جا رہی تھی۔وہ تو اتنی ڈرپوک تھی کہ اس نے یہاں سے بھاگنے تک کی ہمت نہیں کی۔
وہ بچپن سے ہی ایسی تھی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ڈرنے والی اور ہانیہ ہمیشہ اسکی ڈھال بن کر رہی تھی۔اپنی جڑواں کو یاد کر کے وانیا کے رونے میں مزید روانی آ چکی تھی۔
"ہانی پلیز مجھے لے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔مجھے یہاں نہیں رہنا مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔"
نہ جانے کتنی دیر  وہ کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی گھٹنوں میں سر دیے روتی رہی تھی۔تبھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور راگا کمرے میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر وانیا خوف سے خود میں سمٹ گئی۔
راگا گہری نگاہوں سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو ایسا لگ رہا تھا کہ اسکے خوف سے دیوار میں ہی گھس جائے گی پھر راگا کو خیال آیا کہ اس نے کل سے کچھ کھایا نہیں ہو گا اسی لیے گھر کے باہر کھڑے آدمی کو کھانے کا کہہ کر وہ کمرے میں آیا اور اس لڑکی کو دیکھنے لگا جو ابھی تک زاروقطار رونے کا شغل فرما رہی تھی۔
"اففف ماڑا اتنا روئے گا تم تو یہ وادی تمہارے آنسوؤں سے ہی بہہ جائے گا۔۔۔"
راگا کی آواز پر وانیا نے اپنا چہرہ اٹھایا اور سہم کر اسے دیکھنے لگی۔دوپٹے سے بے نیاز وہ مزید خود میں سمٹتی اسکی نظروں سے چھپنا چاہ رہی تھی۔
"افف یہ شمشیر نگاہیں دل گھائل کر گئیں ہیں ان آنکھوں کو اتنی ازیت دینے کی سزا برداشت نہیں کر پائے گی تمہاری نازک جان ۔۔۔"
راگا نے شرارت سے دل کے مقام پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وانیا  سزا کا سن کر مزید رونے لگی۔تبھی ایک آدمی وہاں کھانا لے کر آیا جسے راگا نے وانیا کے سامنے رکھنے کا اشارہ کیا۔
"چلو کھانا کھاؤ تمہارے آنسوؤں کو اس سے بھرپور طاقت مل جائے گی۔۔۔"
راگا اتنا کہہ کر اپنے گال پر موجود زخم صاف کرنے لگا۔وانیا نے یہاں وہاں دیکھا لیکن بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
"پپپ۔۔۔۔پلیز مجھے جانے دیں۔۔۔مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔۔ میں۔۔۔۔میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔۔۔"
وانیا کے التجا کرنے پر راگا نے مڑ کر اسے دیکھا اور پھر کندھوں سے گرم چادر ہٹا کر اپنی قمیض اتارنے لگا۔
وانیا نے ہلکا سا چیخ کر اپنی آنکھوں کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔
"ارے ارے ڈرو مت ماڑا ایسا ویسا کوئی ارادہ نہیں فلحال میرا میں تو بس اپنے زخم پر مرحم لگانے کا سوچ رہا تھا لیکن اگر تمہیں خاموشی سے کھانا نہیں کھانا تو میں اپنا ارادہ بدل دیتا ہوں۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر راگا نے دو قدم آگے بڑھائے تو وانیا نے فوراً ایک نوالا توڑا اور منہ میں ڈال کر روتے ہوئے کھانے لگی۔اسکی معصوم حرکت پر راگا کا دل کیا کہ قہقہ لگا کر ہنسے۔
"یہاں سے جانے کا خیال تو دل سے نکال ہی دو  کیونکہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔۔۔۔اب شرافت سے کھانا کھاؤ ورنہ اپنی شرافت اتار کر بے شرم ہونے کا شوق مجھے بچپن سے ہے۔۔۔۔"
راگا نے ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ آنکھ دباتے ہوئے کہا تو وانیا بغیر کوئی چوں چراں کے کھانا کھانے لگی۔
"نام کیا ہے تمہارا۔۔۔۔ویسے جو بھی ہو دیکھنے میں تو تم۔۔۔بلکل ایک میٹھی مٹھائی لگتا ہے جیسے جلیبی اور وہ بھی کوئی ایسی ویسی جلیبی نہیں افغان جلیبی۔۔۔۔"
وانیا اس شخص کی بے حیا باتیں سن کر مزید رونے والی ہو چکی تھی اور وہ اسکی حالت سے بے نیاز اپنے چوڑے سینے پر موجود گہرے زخم پر مرحم لگاتے ہوئے مسلسل باتیں کر رہا تھا۔
"کیا کھا لیا تم نے کھانا تو۔۔۔۔"
راگا آگے بڑھا تو وانیا چیخ مار مزید دیوار کے ساتھ لگ گئی۔
"ہاہاہا ارے ماڑا کتنا ڈرتا ہے تم میں تو کہہ رہا تھا کہ کھانا کھا لیا ہے تو وہاں جا کر سو جاؤ ویسے بھی رات تو ہو ہی چکا ہے۔۔۔۔"
راگا نے بستر کی جانب اشارہ کیا لیکن وانیا اپنی جگہ سے نہیں ہلی تھی۔
"مم۔۔۔۔مجھے نہیں سونا۔۔۔۔آپ پلیز۔۔۔۔مجھے جانے دیں۔۔۔"
وانیا نے روتے ہوئے کہا تو راگا آگے بڑھا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔
"یہ سہی کہا تم نے سونا تو مجھے بھی نہیں اور سردی بھی کافی ہے یہاں تو چلو کچھ ایسا کرتے ہیں کہ سردی بھاگ جائے اور ماحول تھوڑا گرم ہو۔۔۔۔"
راگا نے شریر نگاہوں سے وانیا کو دیکھتے ہوئے کہا تو جلدی سے راگا سے دور ہو کر روتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگی۔
"نہیں دور رہو مجھ سے۔۔۔"
"ارے آگ جلانے کی بات کر رہا تھا افغان جلیبی سوچ صاف کرو اپنا توبہ کتنا گندہ سوچ ہے۔۔۔۔"
راگا نے ہنستے ہوئے کہا اور لکڑیاں آتش دان میں ڈال کر آگ جلانے لگا۔
"چلو اب سو جاؤ ورنہ میری سوچ صاف نہیں رہے گی اور تمہاری سوچ سے زیادہ بے شرم آدمی ہوں میں۔۔۔"
راگا نے اسے جامد کھڑے ہو کر روتے ہوئے دیکھا تو خطرناک نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ  وانیا خوف سے کانپتے ہوئے بستر میں گھسی اور اپنی آنکھیں بہت زور سے میچ کر کمبل کو مٹھیوں میں بھینچ کر لیٹ گئی۔
راگا اب کی بار اپنے قہقے کو روک نہیں پایا اور پھر مسکرا کر آگ جلانے کا کام کرنے لگا۔
وانیا جو اس خطرناک آدمی کے خوف سے بستر میں گھسی تھی روتے ہوئے تھکن سے چور کب نیند کی وادیوں میں کھو گئی اسکا اسے بھی اندازہ نہیں ہوا۔
اس بات سے بے خبر کہ کوئی بہت دیر تک آگ کی روشنی میں اسکے معصوم چہرے کا دیدار کرتا رہا تھا۔
                       ❤️❤️❤️❤️

   0
0 Comments